تحریر محمد جواد حبیب
حوزہ نیوز ایجنسی। نشاۃ ثانیہ کو لغت میں نئی زندگی، نئی پیدائش، حیات نو کہاجاتا ہے اور اصطلاحاً یورپ کا وہ دور (14ویں تا 16ویں صدی عیسوی) جس میں علوم و فنون و ادب کو فروغ ملا، احیائے علوم کا دور، تحریک احیائے علوم سے یاد کیا جاتا ہے ۔
نشاہ ثانیہ کو نشاۃ ثانیہ کیوں کہا جاتا ہے ؟ اس تحریک کو چلانے والے کون تھے؟ اس کی مقبولیت اور شہرت کی وجہ کیا ہے؟
مغربی دانشوروں کے مغرب کی تاریخ کوتین حصوں میں تقسیم ہوتے کرتے ہیں:
1. تاریخ قدیم
2. قرون وسطی
3. دورہ جدید ، اور دورہ جدید سے ہی رنسانس(نشاۃ ثانیہ ) کا آغاز ہوا ۔
رنسانس یعنی معاشرے کا پہلی حالت سے بہترین حالت کی طرف منتقل ہونا یا ایک عظیم علمی اور ثقافتی انقلاب معاشرے میں برپا کرنا ہےمغرب کی سرزمین پر جو ۱۴ صدی عیسوی کے اواخر سے سرزمین اٹلی سے شروع ہوا اور ۱۶و ۱۵ صدی عیسوی میں پورے مغرب میں پھیل گیا ۔[ ]رنسانس کے ذریعہ عالم مغرب ہزاروں سال غفلت سے جاگ گیا اور انکی افکار و عقاید جھانی بینی (world view ) بدل گیا اسی بنا پر دور جدید اور قرون وسطی میں بہت سی جہات میں اختلاف پائے جاتے ہیں ۔
برتراند راسل مغرب کا مشہور فلاسفر ہے وہ ان دونوں دور میں موجود فرق کو یوں بیان کرتا ہے " قرون وسطی اور دورہ جدید میں بہت سی اختلافات ہیں لیکن دومشہور اختلاف قابل ذکر ہے ۔
۱۔ کلیسا کی بالادستی اور حاکمیت کا زوال ۔
۲۔ سانئسی اور طبی علوم کا عروج ۔
قرون وسطی کے ہزار سال کے دوران، بنیادی طاقت چرچ کے پادریوں کے ہاتھ میں تھی، جنہوں نے لوگوں کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں مداخلت کی، اس وقت بہت سے سائنسدانوں کو کلیسا کی مخالفت کرنے کی وجہ سے مجرم قرار دیا گیا اور قتل کیا گیا. اگرچہ یہ نظام قرون وسطی کے شروع سے آخر تک جاری رہا، لیکن آخری ایام میں یہ زیادہ شدیدت اختیار کرگی تھی ۔ اس بناپر بہت سے دانشمندوں نے کلیسا کی مخالفت شروع کردی جو آہستہ آہستہ سبب بنا"چرچ کی بالادستی کے خاتمہ کے ساتھ، سائنسی اور طبی علوم کے ترقی کا." اس کے علاوہ ثقافت کےلحاظ سے بھی نمایاں تبدیلی نظر آنے لگی لوگ دینداری سے سکولر بنے لگے اورمعاشرے پر لبیرالیسم ، ہیومانیسم اور میٹریالیسم حاکم ہوتے چلے گے اور آج کے دور میں وہ اپنی عروج پر پہونچ چکے ہیں۔
نشاۃ ثانیہ (Renaissance)کے اسباب و عوامل :
نشاۃ ثانیہ کا سبب بننے والے اسباب و عوامل اور شخصیات کا تعین کرنا ایک مشکل کام ہے اور اس پر تفصیلی بحث اور گفتگو کی ضرورت ہے، ایان باربور اپنی کتاب "سائنس اور مذہب" میں کہتے ہیں: "سائنسی علوم کا عروج ایک پیچیدہ سماجی مسئلہ ہے جو کئی صدیوں پر محیط رہا ہے اور کئی اسباب و عوامل سے متاثر ہوتا رہا ہے"
کچھ عوامل جیسے؛ کلیسا کی حکمرانی کی شکست، معاشی قوتیں، تجارت کی توسیع، دولت میں اضافہ، کمپاس کی دریافت، آتشیں اسلحے کی دریافت، اور سب سے اہم اخبارات کی طباعت اور اشاعت کی صنعت اور رسالوں نے نئے رجحان کو تیز کیا۔ امریکہ کی دریافت اور ایشیا اور ہندوستان تک اس کی رسائی نے جغرافیائی معلومات کو وسعت دینے کے علاوہ یورپیوں کے لیے ایک وسیع میدان فراہم کیا اور ان میں ایک خاص ولولہ پیدا کیا۔بعض دانشمند اور سائنسدان صلیبی جنگوں کو یورپیوں کی بیداری پر اثر انداز ہونے والے عوامل میں سے ایک شمار کرتےہیں۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان تقریباً دو سو سال تک جاری رہنے والی یہ جنگیں عیسائیوں کی شکست پر ختم ہوئیں۔ لیکن مشرقی اور مسلمانوں کے علوم و معارف سے عیسائیوں کی واقفیت کے لحاظ سے ان کے لیے اس کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے اور سب سے اہم اسلامی ثقافت اور تہذیب پر عمل درآمد ہونا بھی ایک ہے
اگرچہ برتراند راسل "پرانی تہذیب اور نئی یورپی تہذیب کے درمیان ترسیل کا ذریعہ اسلامی تہذیب کو سمجھتا ہے اس بنا پر اسلامی تہذیب کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے " لیکن دیگر اسکالرز مغربی رنسانس کےلئے اسلامی ثقافت اور تہذیب کو مہمترین عامل جانتے ہیں۔ یورپ نے مسلمانوں سے علم وفنون سیکھے ، تہذیب وتمدن کے اصول سیکھے،آزادی کا تصور سیکھا، عقل ومنطق کے اسراررموز معلوم کئے۔یورپ کی نشاۃ ثانیہ مسلمانوں کی مرہون منت ہے۔مسیولیٹری لکھتے ہیں کہ "اگر تاریخ میں عرب منصہ شہود پر نمودار نہ ہوتے تو علوم و فنون اور تہذیب و تمدن مین یورپ کی بیداری کئی صدی اور موخر ہوجاتی۔‘‘ بریفالٹ اپنی کتاب’’ انسانیت کی تعمیر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ "عربوں کے بغیر جدید یورپی تہذیب کا ارتقاء ناممکن تھا۔یورپی تہذیب کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جہاں پر عربی موئثرات کی نشاندہی نہ کی جاسکے "۔پروفیسر ہٹی نے لکھا ہے:"میڈیول یورپ کی علمی تاریخ میں مسلم اسپین نے شاندار اسباق رقم کئے ہیں۔آٹھویں صدی سے لیکر تیرھویں صدی تک پوری دنیا میں تہذیب و تمدن کی مشعل بردار عربی مسلمان ہی تھے۔ان ہی کے ذریعے قدیم علوم و فنون محفوظ ہوئے اور یورپ میں نشاۃ ثانیہ ممکن ہوا"۔یورپ کی نشاۃ ثانیہ کا بانی روگر بیقن (Bacon Roger ) نے کہا تھا کہ اسلامی علوم ہی حقیقی علم کا ذریعہ ہیں اور اسی بیقن کو ایم۔این روی(M.N.Roy) نے اپنے مضمون 'اسلام کا تاریخی رول'میں مسلمانوں کا شاگرد کہا ہے۔
نشاۃ ثانیہ(Renaissance) میں دانشمندوں کا کردار:
مغرب کی نشاۃ ثانیہ میں نمایاں کردار نبھانے والے کچھ شخصیات اور دانشمند حضرات کا ذکر کرنا لازم سمجھتا ہوں جنہوں نے مغربی دنیا کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اگر چہ ان کے بارے میں بھی اختلاف نظرپایا جاتاہے
ويل دورانت اپنی کتاب " تاريخ فلسفه" میں یوں لکھتے ہیں: " مغربی نشاۃ ثانیہ راجر بیکن متوفي 1294 ميلادي سے آغازہوا اور لئوناردو داوينچي (1519-1452) کے ذریعے پھیل گیا اور فلکیات میں کپرنیک (1473-1443) اور گلیلیو (1564-1643) کے توسط بیداری نصیب ہوئی۔اور مقناطیسیت اور بجلی (الکٹریسٹی) میں گیلبرٹ (1544-1603)، اور طب اور اناٹومی میں وساليوس (1514-1564 عیسوی) اور ہاروے (خون کی گردش کو دریافت کرنے والا) تھا ۔باربور نے جدید علوم کی ترقی میں دو اہم کردار گیلیلیو (1632) کے علمی نظریات اور نیوٹن کے اصول (1687) کوبھی سمجھا ہے ۔ اور "فروغی نے مختلف شعبوں میں بہت سے لوگوں کا تذکرہ بھی کیا جنہوں نے سائنس کے پھلنے پھولنے اور نشاۃ ثانیہ کے ظہور میں اپنا کردار نبھایا ہے ان میں افرادي نظير بيكن، لئوناردو داوينچي، كپلر، كپرنيك، گاليله، كاردان فرانسوي، ويت، اندره وزال، پاراسلس، گسنر، ويليام هارو " کا نام لیا جاسکتا ہے۔
نشاۃ ثانیہ (Renaissance)کے اثرات :
نشاۃ ثانیہ کے بہت سے اثرات اس دور جدید کی شہرت کی بنیادی وجہ ہے، اس سائنسی تحریک میں اس وقت تیزی آئی جب یکے بعد دیگرے ایجادات اور دریافتیں سامنے آئیں۔ علم کے ستارے یکے بعد دیگرے طلوع ہوتے رہے اور تجربہ گاہوں کے تجربات اور ترقی کے نتیجے میں سائنسدانوں کی طرف سے بہت سی ایجادات ممکن ہوئیں۔ "سترہویں صدی کے آغاز سے، ریاضی کے تجربات اور تجرید کے نئے طریقوں کے باقاعدہ استعمال سے چونکا دینے والے نتائج برآمد ہوئے، جو 'سائنسی انقلاب' کے نام سے مشہور ہوئے۔لیکن شاید نشاۃ ثانیہ کی شہرت کی سب سے اہم وجہ سائنسی فکر اور انسانی فکر میں رونما ہونے والی تبدیلیاں تھیں۔ "انسانی فکر اور زندگی پر جدید سائنس کے اثرات اتنے عظیم اور خاص تھے کہ تہذیب کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔"
اس کے علاوہ، نشاۃ ثانیہ نے ایک نئی قسم کی مذہبیت متعارف کرائی۔ "سائنس آہستہ آہستہ الہیات سے الگ ہوتی گئی، اور اس نے لوگوں کی مذہبی زندگی کو بھی متاثر کیا۔ نشاۃ ثانیہ میں، ایک شخص کا خدا کے ساتھ ذاتی تعلق چرچ کے نظام سے کہیں زیادہ اہم تھا، بالکل قرون وسطیٰ کے برعکس، اس وقت انسان کا خدا کے ساتھ تعلق صرف چرچ کے ذریعے ہی ممکن تھا" ۔ "نشاۃ ثانیہ کی ہیومنزم، اس کو سرے سے ختم کردیا بلکہ خود انسان کو خدا کی جگہ پر رکھ دیا جو بعد میں ایک نئے انسانی عقیدے کا باعث بنی۔ "انسان پرستوں نے انسانی نشاۃ ثانیہ کو اپنے اس کام کا نقطہ آغاز بنایا۔" یہ اور دور جدید میں رونما ہونے والی درجنوں تبدیلیوں نے اس دور کو مشہور کیا۔اگر خلاصہ میں بیان کیا جاے وہ نشاۃ ثانیہ افراط اورتفریط کا دور ہے جسمیں انہوں نے ایک افراطی فکر و عقیدے سے نجات پانے کےلئے تفرطی راستہ انتخاب کیا مذاہب عیسایت سے نجات پانے کے لئے سارے ادیان کا انکار کردیا جو ان کو ہر پریشانی میں مبتدلا کرسکتی ہے اس لئے بہتر یہ ہے کہ انسان میانہ وری سے کام لے اور مذہب کو مذہب کے دائرہ میں رکھے اور سانئسی و طبی علوم کو اپنے دائرہ میں رکھے تاکہ ایک بہترین نظام کائنات پر حاکم ہوسکے ۔